خود کوبدل لیا:میٹرک میں ایک لڑکا مجھے پڑھانے آتا تھا، اس وقت وہ بی ایس سی کررہا تھا، پھر اس نے جاب کرلی، میں مسلسل پڑھتی رہی، اب میں اور وہ یونیورسٹی میں ساتھ ہیں، ہمارے درمیان دوستی ہوگئی، میں نے اس کی خاطر خود کو اس قدر بدل لیا کہ مجھے خود اپنے اوپر بھی حیرانی ہوتی ہے، اس نے کہا تم نقاب کرو، میں نے پورا پردا کیا، کسی لڑکے اور لڑکی تک سے بات کرنے پر پابندی لگائی، میں نے یہ بھی کیا۔ اب وہ کہتا ہے گھر والوں کی بات بھی نہ مانو، میں اس سے پڑھ چکی ہوں، وہ پہلے ایسا نہیں تھا، اسی لئے تو قریب ہوئی تھی، اب اس قدر ذہنی پریشان ہوں کہ ایم ایس سی کی ڈگری کا حصول مشکل لگتا ہے۔ (ج۔ر‘ جھنگ)
مشورہ:اس تجربے سے سبق لیں کہ کسی نامحرم لڑکے کے قریب ہونے سے زندگی کس قدر اذیت ناک بن جاتی ہے، ابھی وقت ہے اس سے فاصلہ اختیار کرلیں۔،خیال رہے کہ لہجے میں ناراضی یا طنز نہ ہو۔اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیجئے آپ کے سب مسائل حل ہوجائیں گے۔ رہی بات دوستی کی تودوستی میں آزادی بنیادی حیثیت رکھتی ہے، ایسی دوستی زیادہ پائیدار ہوتی ہے جس میں ایک دوسرے کا تجسس نہیں ہوتا، عام طور پر غیر ضروری اور صرف اپنی پسند ناپسند کے مطابق پابندی لگانے والے ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں، نقاب کرتیں تو اپنی مرضی اور ذہن کی آمادگی سےاحکام خداوندی کے تحت تاکہ آپ کے دل سکون ملے اور حفاظت کا احساس بڑھے۔ اب وہ گھر والوں کے حوالے سے پابندیاں لگارہا ہے، یہاں اس کو روک دیں۔
ماں سے کچھ نہ چھپانا:دل ہی دل میں اپنے ایک کزن کو پسند کرتی رہی، مجھے اندازہ تھا کہ وہ کبھی میرے بارے میں بات کرے گا، حال ہی میں وہ امریکہچلا گیا، اس کے جانے کے بعد میں بے حد اداس ہوگئی حالانکہ میری اس سے بات نہیں ہوتی تھی، بھابھی نے میری حالت دیکھی تو بتایا کہ اس نے میرا ذکر کیا تھا، انہوں نے یہ سوچ کر خاموشی اختیار کرلی کہ میں برا نہ مان جائوں۔ مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ وہ امی سے یہ ذکر کسی غلط انداز میں نہ کردیں۔ (غ۔اسلام آباد)
مشورہ:ماں سے کوئی بات نہیں چھپانا چاہئے، آپ خود ذکر کریں اور ان کو ساری بات بتائیے، لڑکا اچھا ہوا تو والدہ بھی اس معاملے کو بہتر انداز میں طے کریں گی،جب غلطی نہیں کی تو اس حوالے سے خود کو پریشان کن خیالات کی یلغار سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔
دواکا الٹا اثر :میں بے حسد حساس ہوں‘ ذرا سی بات پر گھنٹوں بلکہ مہینوں تک سوچتی رہتی ہوں‘ بات اچھی ہو یا بری‘ جم کر رہ جاتی ہے۔ میری ایک دوست نفسیاتی علاج کرواتی ہے تنگ آکر اس کی دوا کھانی شروع کردی تو الٹا اثر ہوا‘ گھبراہٹ بڑھ گئی‘ ٹھنڈے پیسنے آنے لگے‘ میرے اس مسئلے کو گھر والے اہمیت نہیں دیتے۔ (ش۔ کراچی)
مشورہ:آئندہ کسی دوسرے کی دوا کھاکر خود کو خطرے میں نہ ڈالیں کیونکہ منفی اثرات شدید بھی ہوسکتے ہیں۔ خوف، غصہ، پریشانی، خیالات کا دبائو، اذیت کا احساس، پچھتاوے یہ سب انسان کا سکون چھین کر مسلسل دینے والی تکلیف میں مبتلا رکھتے ہیں جبکہ اچھے خیالات اور جذبات پریشانی کا سبب نہیں ہوتے۔ جیسے ہی کوئی منفی خیال دماغ میں آئے اسے ٹھہرنے نہ دیں اس کی جگہ متبادل اچھی بات سوچیں۔ احساس کمتری کا شکار:میرے تایا کے بیٹے ملک سے باہر ہیں‘ میری والدہ ہر وقت میرا ان سے مقابلہ کرتی رہتی ہیں‘ مجھے معلوم ہے کہ والد کے پاس اتنی رقم نہیں وہ تو ہمیں میٹرک سے آگے تعلیم نہیں دلواسکے‘ بڑی مشکل سے ہم بہن بھائیوں نے پڑھا ہے۔ جب کوئی باہر سے آتا ہے تو میرا دل نہیں چاہتا کہ اس سے ملنے جائوں‘ سوچتا ہوں احساس کمتری کا شکار ہوجائوں گا۔ (کامران‘ اوکاڑہ)
مشورہ:اکثر والدین اپنے بچوں کا مقابلہ رشتے داروں یا پڑوسیوں کے بچوں سے کرتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا کبھی بھی فائدہ نہیں دیتا۔ اس طرح بچوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے‘ آپ لوگوں سے ملنا نہ چھوڑیں‘ اپنے حوالے سے مشورے کیا کریں ‘ والدہ کو بھی سمجھائیں کہ آپ لوگ ان سے دور ہوں گے تو وہ زیادہ فکر مند ہوں گی۔ ا چھی زندگی گزارنے کیلئے ضروری نہیں کہ انسان ہر حال میں ملک سے باہر چلا جائے‘ باہر جاکر بھی وہی لوگ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکے ہوں یا کسی ہنر کے ماہر ہوں۔ جو لوگ مشکلات برداشت کرتے ہوئے کامیابی کے راستے پر چلتے ہیں انہیں خود پر فخر کرنا چاہیے۔
امتحان میں بیمار:تین سال ہوگئے ہیں ہر بار امتحان میں بیمار ہوجاتا ہوں ایک ہفتہ پہلےہی پیٹ کی تکلیف شروع ہوجاتی ہے‘ علاج کروایا‘ ادویات لیں‘ لیکن ٹھیک نہیں ہوا۔ جیسے ہی امتحان ختم ہوئے طبیعت صحیح ہونا شروع ہوجاتی ہے گھر میں کوئی یہ بات کرتا ہے تو میں نہیں مانتا لیکن اکیلے میں بیٹھ کر سوچتا ہوں‘ تب خیال آتا ہے کہ واقعی ایسا ہے‘ یہ بتاتا چلوں کہ میں بہانا نہیں بناتا۔ (کاشف‘ لاہور)
مشورہ: بعض بچے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں امتحان کے خوف کے باعث اس قدر فکر مند اور تنائو کا شکار ہوجاتے ہیں کہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ دراصل ان کو امتحان کا خوف ہوتا ہے اور اس سے بچنے کیلئے ان کا دماغ بیماری کالاشعوری حربہ استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ آپ کی بیماری کی وجہ بھی ذہنی خوف اور تشویش ہے۔ اس قسم کے خوف کی مختلف وجوہ ہیں مثلاً سال کے آغاز سے امتحان کی تیاری نہ کرنا‘ پڑھائی‘ لکھائی میں دلچسپی نہ لینا لیکن والدین کے دبائو میں پڑھنے کی ضرورت سمجھنا‘ بہترین گریڈ سے پاس ہونے میں ناکامی کا خیال آنا‘ اس خوف کو دور کرنے کیلئے سال کے آغاز سے پڑھائی کریں اور ہر ماہ ٹیسٹ دیں۔ اس ٹیسٹ کو اتنا اہم بنائیں جتنا کہ سالانہ امتحان ہوتا ہے۔
دل سے مجبور ہوں :مجھ سے گھر کا کھانا بالکل نہیں کھایا جاتا‘ لگتا ہے صفائی سے نہیں بنایا‘ امی کے ہاتھ کا پکا کھانا کھالیتا ہوں‘ وہ عمرے پر گئیں تو بھابھی نے کھانا پکانے کی ذمہ داری سنبھالی اور میں نے ہوٹل کا رخ کیا۔ بھائی ناراض بھی ہوئے لیکن میں اپنے دل سے مجبور ہوں‘ لگتا ہے گھر میں کھانا کھانے پر یہ لوگ مجھے مجبور کرتے ہیں‘ میں کسی کو کچھ نہیں کہتا‘ اندر ہی اندر پریشان رہتا ہوں‘ اپنی امی کی بھی فکر ہے‘ انہیں کچھ نہ ہو جائے۔ بار بار فون کرتا رہتا ہوں‘ یونیورسٹی جانے کو بھی دل نہیں چاہتا‘ پڑھائی کا نقصان ہورہا ہے۔ (شہریار‘ کوئٹہ)
مشورہ:حقیقت یہ ہے کہ صحت کیلئے گھر کا بنا ہوا کھانا زیادہ اچھا ہوتا ہے‘ باہر کا کھانا آپ کو اس لئے ٹھیک لگتا ہوگا کہ آپ نے اس کو بنتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بہرحال یہ ساری باتیں اور مشکلات منفی خیالات کے سبب ہیں‘ بھائی کو آپ سے محبت ہے اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ آپ ہوٹل کے بجائے گھر کا کھانا کھایا کریں۔ ماں باپ کو بچوں سے اور بچوں کو ماں باپ سے شدید محبت ہوتی ہے‘ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کسی اہم وجہ سے دونوں کو ایک دوسرے سے دور ہونا پڑجائے تو وہ زندگی معمول کے مطابق نہ گزار سکیں۔ آپ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں‘ اپنے وقت کی اہمیت اور تقاضوں کو پہچانتے ہوئے پڑھنے کی طرف راغب رہیں‘ وقت زیادہ جلدی گزرتا محسوس ہوگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں